__________وہ کون تھا……..!
کیا تھا…….!
مجھے کچھ پتا نہ تھا -!
مجھے تو بس وہ آوازوں کا سوداگر لگ رہا تھا – میرے پاس بیچنے کو کچھ بچا تو تھا نہیں……..! سو
میں نے سوچا آواز ہی بیچی جائے – مگر میری تو آواز بھی نہیں نکل رہی تھی –
میں نے خود کو اُسکے پاس رہین کرکے کے ایندھن لے لیا – اور اُس بھٹی میں ڈال دیا جو لاشعوری سے ہی میرے پیٹ میں جڑ دی گئی تھی –
میری آواز نکلنے لگی – میں چلایاّ….!
خوب جم کر نعرے بازی کی میرا گلا بیٹھ گیا –
وہ “مجھ سے متاثر ہوا – اور کہنے لگا
” خوب کل مل لینا ”
میرا مقصد پورا نہیں ہوسکا تھا _
مجھے آس تھی تھی آج نہ سہی کل دیوالی ،میں گھر کی طرف بڑھنے لگا میری آواز کے ساتھ میرے قدم بھی بوجھل تھے ،
گھر قریب آنے لگا – مجھے ڈر پیدا ہونے لگا – ماں چلاّے گی بیوی چلاّے گی ،
اتنے …….. میں” گھر”
آگیا _____گھر کے اندر داخل ہوا تو ،”اندر” کے لوگ
بپھرے ہوئے تھے وہ چلاّنا تو چاہ رہے تھے مگر چلاّ نہیں پارہے تھے ،
شاید انھیں بھی ایندھن کی ضرورت تھی ___⚫
_____________
تحریر: احمد نعیم،انڈیا
فوٹوگرافی و کور ڈیزائن: صوفیہ کاشف